ثاقب نثار سے متعلق بیان حلفی کسی اخبار کو نہیں دیا، سابق چیف جج رانا شمیم

اسلام آباد:(ویب ڈیسک) سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلق بیان حلفی کیس میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں حیران کن بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اخبار کو کوئی بیان حلفی نہیں دیا، ان کا بیان سربمہر تھا جو پتہ نہیں کیسے افشا ہوگیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی پر توہین عدالت کے کیس کی سماعت کی۔ سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔

اخبار کے مالک نے شوکاز نوٹس پر ہائی کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ جہاں تک متعلقہ خبر کی بات ہے، میں اپنے ایڈیٹر کی بات سے متفق ہوں، ایڈیٹر نے خبر کی اشاعت سے قبل بتایا کہ وہ مطمئن ہیں کہ فریقین کا موقف معلوم کیا گیا ہے، استدعا ہے کہ توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔

ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت سے متعلق اہم معیار ہم نے فردوس عاشق اعوان کیس میں طے کر دیے ، پچھلی سماعت پر بھی کہا تھا کہ یہ ہمارا بھی احتساب ہے ، آزادی اظہار رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ ڈیوٹیز بھی ہیں۔

عدالت نے رانا شمیم کو پانچ روز میں شوکاز نوٹس پر جواب جمع کرانے کا حکم دیا، تو رانا شمیم نے بارہ دسمبر کے بعد کا وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ابھی وہ بیان حلفی بند ہے جسے میں نے خود بھی نہیں دیکھا۔ عدالت نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا آپ نے اپنا بیان حلفی نہیں دیکھا؟۔ جس پر رانا شمیم نے کہا کہ جو بیان حلفی اس عدالت میں جمع ہوا ہے وہ نہیں دیکھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے تین سال بعد بیان حلفی دیا، آپ نے کسی مقصد کے لیے لندن میں دیا ہو گا ، یہ آپ کا بیان حلفی ہے یا نہیں وہی آپ نے جواب میں لکھنا ہے، مقصد کیا تھا بیان حلفی کا وہ آپ نے بتانا ہے ، نا صرف اس عدالت بلکہ تمام ججز کو آپ کے بیان حلفی نے مشکوک بنادیا ہے، یہ سنگین توہین عدالت ہے ، عدالت نے ماضی میں کوشش کی کہ عوام کا اعتماد عدلیہ پر بحال ہو، آپ بتائیں کہ بیان حلفی ہے یا نہیں۔

ثاقب نثار سے متعلق بیان حلفی دینے والے رانا شمیم نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں حیران کن بیان دیتے ہوئے کہا کہ میرا جو بیان حلفی اخبار میں چھپا وہ ابھی تک دیکھا بھی نہیں ، اخبار نے خبر چھاپنے کے بعد مجھ سے رابطہ کیا تھا، میرا بیان حلفی بند تھا پتہ نہیں کس نے ان کو دے دیا ، میں نے ان کو بیان حلفی کی کاپی نہیں دی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بیان حلفی سِیل تھا تو پھر اخبار کو یہ بیان حلفی کیسے ملا؟ ۔

رانا شمیم نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم کہ جو بیان حلفی اخبار میں رپورٹ ہوا وہ کون سا ہے؟ میں پہلے اسے دیکھ لوں، بارہ دسمبر کے بعد کی تاریخ رکھ لیں تو میں کافی ایزی ہو جاؤں گا، اس سے پہلے کی ڈیٹ رکھی تو اوریجنل بیان حلفی نہیں آ سکے گا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت سے کہا کہ پہلی دفعہ انہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے یہ بیان حلفی کسی کو نہیں دیا تھا ، عدالت ان کو کہے کہ اصل بیان حلفی عدالت کے سامنے پیش کریں، یہ دس سال پہلے کی دستاویز نہیں دس نومبر کی ہے اور اس وجہ سے عدلیہ کے خلاف مہم چل رہی ہے، کس نے بیان حلفی لکھا وہ تو سامنے آئے، میری درخواست ہے کہ یہ ریکارڈ پر آجائے کہ یہ نہیں جانتے کہ بیان حلفی میں کیا تھا، رانا شمیم کو تین سال پہلے کا تو یاد تھا کہ کس نے کیا کہا تھا لیکن بیس دن پہلے کا بیاں حلفی یاد نہیں، جس شخص نے بیان حلفی دیا اسے یاد نہیں کہ بیان حلفی میں کیا لکھا ہے، اگر انہیں نہیں معلوم تو پھر یہ بیان حلفی کس نے تیار کروایا؟۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہ مختلف بیان حلفی پیش کردیتے ہیں تو پھر تو اخبار پر بہت زیادہ ذمہ داری آجاتی ہے، رانا شمیم کے آج کے بیان نے مزید معاملہ الجھایا ہے۔

ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ رانا شمیم اوریجنل بیان حلفی کے ساتھ تحریری جواب داخل کریں۔ عدالت نے اخبار کے ایڈیٹر انچیف، ایڈیٹر اور ایڈیٹر انوسٹی گیشن کے جوابات عدالتی معاونین کو فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی۔

عدالت میں رانا شمیم کے بیان حلفی کی کاپی رانا شمیم کے پاس بھی موجود نا ہونے کا انکشاف ہوا۔ رانا شمیم نے کہا کہ کاپی برطانیہ میں ہی ہے، 7 دسمبر تک دستاویزات نہیں پہنچ سکتیں، لہذا میرا شوکاز پر جواب ہی آسکے گا، بیان حلفی کی دستاویز نہیں آسکے گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ دستاویز بھجوائیں ہم وزارت خارجہ سے پراسس کرا دیں گے۔

عدالت نے سات دسمبر تک رانا شمیم کو اصل بیان حلفی اور شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔