ٹکا روپیہ سے دگنا،کیوں؟

لاہور: (تیمور خٹک)ہم سب نے یہ بات تو ضرور کہیں نہ کہیں سنی ہوگی کہ تم تو دو ٹکا کے آدمی بھی نہیں، یہ بات ایک طرح ہمارے معاشرے میں محاورہ یا ضرب الامثل بن گئی ہے، یہ دو ٹکا کیا ہے؟ اس کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ ہم پاکستانی یہ کیوں کہتے ہیں؟

ٹکا اصل میں بنگلادیش کی کرنسی ہے جس طرح ہماری روپیہ ہے، لیکن جب 1971 میں سقوط ڈھاکہ ہوا جس کے نتیجے میں مغربی پاکستان، پاکستان کی وجود میں اور مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا تو پاکستان کی کرنسی تو وہی روپیہ ہی تھی لیکن بنگالیوں نے اپنی کرنسی ٹکا رکھ لی۔

ایک نیا ملک وجود میں آیا، وسائل کی کمی لوگوں کا ہجرت کرنا، تجارت میں ایک بہت خلل سا تھا، اتنی قتل و غارت ہوئی جس کے بارے پڑھ اور سن کر افسوس اور شرمندگی ہوتی ہے۔ جس کے پیچھے کچھ ہمارے سیاستدان، فوج اور دوسری جانب مجیب الرحمٰن کی مہربانیاں تھی۔ خیر کون کتنا سقوط ڈھاکہ میں ملوث تھا اس کا تعین نہیں ہوسکا شاید کوئی کرنا بھی نہیں چاہتا نہیں تو حمود الرحمن کمیشن رپورٹ دشمن ملک بھارت سے نہ آتی۔

بات ہورہی تھی ٹکا کی، بنگلادیش کے وجود کے بعد تو معاشی حالت جس طرح پاکستان کے تھے اس سے بدتر بنگلادیش کے اپنے تھے، یوں پھر وہاں سے ہم پاکستانیوں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کردیا اور ان کی کرنسی سے ہم نے اردو ادب کے ضرب المثال میں اضافہ کرکے اپنی قوم پہ احسان کر دیا اور آج تک ہم یہی سنتے آرہے اور دوسروں کو برائے تنقید یہی "دو ٹکا کے بھی آدمی نہیں ہو” پکارتے ہیں۔

عام فہم میں اس کا مطلب کہ تم تو بنگلادیش کے دو ٹکا بھی جمع کر لو تو اس کے برابر بھی نہیں لیکن کسی کو کیا خبر تھی بنگلادیش نے اس بات کو اپنا عزم، ویژن بنا لیا اور آج پاکستان کے دو روپیہ ایک ٹکا کے برابر ہوگیا، اور آج بنگلادیش میں یہ مثال درج ہوگی کہ تم تو دو روپے کے آدمی بھی نہیں، یہ تبدیلی بنگلادیش میں کیسے وجود میں آئی؟

اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ یونیورسٹی میں ریسرچ کی کلاس میں بیٹھے تھے سر خالد رشید آئے اور حسب معمول پڑھانا شروع کر دیا انہوں نے کچھ کام دیا ہوا تھا جو ہم عدم دلچسپی نہیں کرکے آئے تھے سر مایوس ہوئے، تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہوگئے اور بتایا کہ بیٹا میں آج سے بارہ سال پہلے بنگلادیش ریسرچ پڑھانے ڈھاکہ گیا، میں نے دوسرے ملک میں جانے سے پہلے اپنی ریسرچ بہتر کرنے کی کوشش کی کہ کہیں وطن عزیز کی توقیر میں گستاخی نہ ہو جائے کہا میں نے بھر پور تیاری کی اور پہلے دن کلاس جا پہنچا بچوں کو اپنے بارے میں متعارف کروایا ان سے بھی حال پوچھا۔

جیسے ہی انٹروڈکشن ختم ہوا اور لیکچر شروع کیا، بچوں کو لیکچر دیا، تو بچوں کے ایسے سوالات میری طرف آئے کہ میں سمجھ نہ سکا، کہا میں بیک وقت سوچتا رہا بنگلادیش کے اسکولوں میں کیا شاندار تعلیم کا نظام ہے، انتظامیہ جوانوں کیلئے کتنا فکر مند ہے اور نوجوان اپنے وطن کیلئے کتنا سنجیدہ ہے۔ بولے میں ایک بار تو اس بات پہ قائل ہوگیا کہ

"Khalid Rasheed you are not perfect for them”

اے خالد رشید تم اس کلاس کیلئے تیار نہیں ہوں، کہا میں نے اس دن تو ان کو کچھ سمجھانے کی کوشش کی لیکن بار ہا فلیٹ میں جا کے سوچتا رہا کہ بنگلادیش کا مستقبل یقیناً تابناک ہوگا اگر اس طرح طالب علم ہونگے۔ سر خالد بتا رہے تھے جب میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں ان بچوں کو پڑھا رہا تھا تو وہ بی ایس کر رہے تھے مطلب بیچلر لیول میں تھے کہا کچھ سالوں بعد جب میں پاکستان واپس آیا اور پھر انہی طلباء سے رابطہ ہوا تو ان تمام طلباء میں سے سوائے ایک طالب علم کے تمام نے پی ایچ ڈی کر لی ہوئی تھی اور جس ایک نے نہیں کی تھی وہ خاندانی پیشہ کاروبار ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کو چلا رہے تھے۔

آج ٹکا کیوں روپیہ سے اوپر ہوگیا ہے آج بنگلادیش کا نوجوان بتا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ کہا پہنچ جائے گا جب کہ ہم آج بھی بنگلادیش کو کن ذہن اور سست قوم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ہمارے حکمران بنگلادیش کے بارے میں ہمیں کیا سبق پڑھاتی رہی سب کو معلوم ہے لیکن افسوس کہ اصل حقیقت کچھ اور ہے اور ہم آج غفلت کی نیند سو رہے ہیں اور بنگلادیش کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھی جا رہا ہے جو قابل فخر ہے۔

بنگلہ دیش کی بڑی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جس میں سے چھ لاکھ آئی ٹی میں بطور فری لانسر کام کر رہے ہیں جو دنیا کے کسی بھی ملک میں فری لانسرز کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ جںکہ آج ہمارے سکول، کالج اور یونیورسٹی میں کیا پڑھایا جا رہا ہے۔

ہمارے نوجوان نوے فیصد تو بمشکل انٹرمیڈیٹ کرتی پھر آٹھ فیصد یونیورسٹی میں جاتے ہیں اور پی ایچ ڈی تو بس جن کو زوق وشوق ہو تو وہیں کرتے ہیں اور جو یونیورسٹی سے پاس آوٹ ہوتے تو بھی انٹرنشپ کیلئے کبھی ایک ادارے تو کبھی دوسرے اداروں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔

ہماری یونیورسٹیوں کا وہ لیول ہی نہیں جو مغرب میں ہے میں سمجھتا ہوں اور جو حقیقت بھی کہ ایک طالب کو یونیورسٹی کے بعد کہیں انٹرنشپ کیلئے تو جگہ نہیں دیکھنی چاہیے کم سے کم اسے مارکیٹ کے مطابق تیار ہونا چاہیے یونیورسٹیوں کو اتنی فیسوں کے عوض اتنا تو کرنا چاہیے لیکن نہیں کیونکہ کس نے پوچھ گچھ کرنی، انتظامیہ اپنا چورن بیچنے میں لگی ہوئی ہے جبکہ ہماری درسگاہیں اپنا چورن بیچنے میں مصروف ہے، وطن عزیز کا صرف بس اللہ ہی حافظ ہےاب۔