اسلام آباد: (ویب ڈیسک) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز اور ہراساں کیے جانے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل پاکستان بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
مطیع اللہ جان اغوا، ابصارعالم پر حملے کے مقدمات میں غیر تسلی بخش کارکردگی پر چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایک کرائم کی ریکارڈنگ موجود ہے، ان ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکے؟‘ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ کس قسم کے آئی جی ہیں؟ ان کو ہٹا دیا جانا چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ چار سال ہو گئے اور آپ کو کتنا وقت چاہیے؟ کیا آپ کو چار صدیاں چاہییں؟
چیف جسٹس نے اسلام آباد کے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کاہ آئی جی صاحب آپ آئے کیوں ہیں یہاں؟ کیا آپ اپنا چہرہ دکھانے آئے ہیں؟ کسی صحافی کو گولی مار دی جاتی ہے کسی کی گھر میں جا کر پٹائی کی جاتی ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اسد طور جیل میں ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ کیوں جیل میں ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ اسد طور پر حکومتی افسران کا وقار مجروح کرنے کا الزام ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے نے سپریم کورٹ کے ججز کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی۔ انھوں نے استفسار کیا کہ کیا کسی جج یا رجسٹرار نے صحافیوں کے خلاف شکایت کی تھی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اسد طور کے خلاف ایف آئی آر پر ایڈشنل ڈی جی ایف آئی اے کو مخاطب کر کے ریمارکس دیے کہ ’ہمارا نام استعمال کر کے آپ نے اپنا کام کر لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں صحافیوں کی ہراسگی سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ اسد طور کی ایف آئی آر میں پیکا سیکشن نو دس اور چوبیس لاگو نہیں ہوتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسد طور کے خلاف مقدمہ میں سنگین نوعیت کی دفعات عائد کی گئی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس مقدمے میں حساس معلومات سمیت عائد دیگر دفعات کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ انکوائری نوٹس میں لکھا گیا کہ عدلیہ کے خلاف مہم پر طلب کیا جا رہا ہے۔ جبکہ ایف آئی آر میں عدلیہ کے خلاف مہم کا ذکر تک نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تو عدلیہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی گئی ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ’صحافیوں کے خلاف مقدمات کے اندراج سے پہلے ہی جے آئی ٹی قائم کی گئی ہے، جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آئی ایس آئی کا نمائندہ جے آئی ٹی میں کیسے شامل ہوسکتا ہے؟‘ آئی ایس آئی انٹیلی جنس ایجنسی ہے قانون نافذ کرنے والا ادارہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کا نفاذ آئی ایس آئی کا دائرہ اختیار نہیں ہے، کیوں نہ ایف آئی اے کو توہین عدالت کا نوٹس دیں۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ’سپریم کورٹ کے کسی جج نے ایف آئی اے کو شکایت کی نہ رجسٹرار نے، سپریم کورٹ کا نام استعمال کرکے تاثر دیا گیا جیسے عدلیہ کے کہنے پر کارروائی ہوئی۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ’اس طرح تو عوام میں عدلیہ کا امیج خراب ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے کے متعلقہ افسر خود عدلیہ کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ایڈیشنل ڈی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے پوچھا کہ اسد طور پر حملہ کس نے کیا اس کی رپورٹ دو اور آپ نے اسد طور ہی کے خلاف پرچہ کاٹ دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ ’آپ نے یہ مہربانی ہم پر کیوں کی کہ ہمارا نام استعمال کر کے ایف آئی آر کاٹ دی، جو دفعات اسد طور پر لگائی گئیں یہ لگتی ہی نہیں، تھوڑی اور بھی دفعات پھینک دیتے نا مقدمے میں، کیا ہم یہ حکم دیں کہ ایف آئی آر اس ایف آئی اے اہلکار کے خلاف درج کی جائے جس نے ہمیں بدنام کیا؟