لاہور: (تیمور خٹک)کتابوں کا مطالعہ بچپن سے ہی تھوڑا تھوڑا تھا لیکن سکول کی کتابوں کا نہیں جن کا پیپر ہوتا تھا۔ گھر میں ابو جی نے تصوف، تاریخ اور شاعری کی خاص طور پر علامہ اقبالؒ، بابا بلھے شاہؒ، سلطان باھوؒ اور میاں محمد بخشؒ کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں تو جب کبھی ابو جان کتابوں کا مطالعہ کرتے تو میں بھی ساتھ بیٹھ جایا کرتا تھا۔ تب چھوٹی عمر میں تو ان عظیم لوگوں کی کتابوں کی اتنی سمجھ نہیں آتی تھی لیکن اس کے باوجود ابو جان اس طریقے سے کتاب سے اخذ کیے واقعہ کو اس انداز میں تفصیل سے سمجھتے کہ آج بھی وہ واقعات ذہن میں کل کی طرح نقش ہے۔
شاید بچپن میں بیٹھے ابو جی کے ساتھ لمحوں نے آج بھی کتابوں کو پڑھنے کا شوق ذہن سے نہیں اتارا، ہمیشہ کی طرح جب بھی لائبریری جانے کا موقع ملتا ہے تو کوئی بھی اچھی سی کتاب اٹھا لیتا ہوں، خیر کتاب تو کوئی بھی بری نہیں ہوتی۔ آج کل سابق پولیس آفیسر ذولفقار احمد چیمہ کی کتاب "دو ٹوک” زیر مطالعہ ہے جس میں ہر نئے باب میں ایک نئی حقیقت درج کی گئی ہیں بلاشبہ ذولفقار احمد چیمہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے۔
انہوں نے جس طرح حضرت محمدؐ، ماں سے محبت اور وطن عزیز سے والہانہ محبت کا ذکر کیا، اس طرح کا عقیدت سے ذکر تو میں نے شاید بچپن میں والد صاحب سے تصوف کی کتابوں میں ہی سنا تھا، آج ان کی خود نوشت پڑھ کر یوں محسوس ہوا کہ بیشک اللّٰہ کے کچھ مخصوص لوگ آج بھی خدمت انسانیت اور وطن عزیز سے محبت میں سرشار آج بھی پاکستان میں موجود ہیں۔
ذولفقار احمد چیمہ کی خود نوشت میں درج باب "آں کدی تینوں اپنا پینڈ وکھا واں "۔ ترجمہ: آو کبھی تمھیں اپنا گاؤں دکھاؤں۔ چیمہ صاحب اپنے سفر نامے میں سویٹزرلینڈ کے دورے کا ذکر کرتے ہیں۔ سویٹزرلینڈ جو دنیا کے خوبصورت ممالک میں جانا جاتا ہے وہاں کے سفیر نے چیمہ صاحب کو شہر کے قریب گاؤں کا خوبصورت ماحول دکھانے کے لیے کہا تو چیمہ صاحب بھی ان کے ہمراہ چل پڑے، تو جیسے ہی کھیت ہریالی، اور دنیا کے حسن کا منظر قریب آیا تو چیمہ صاحب نے بغور جائزہ کے بعد ساتھ ہی ہمسفر سفیر کو اپنی پنجابی زبان میں کہا کہ "آں کدی تینوں اپنا پینڈ وکھا واں "۔
سفیر نے حیرت سے دیکھتے ہوئے ان سے کہا معزرت کے ساتھ آپ نے کیا کہا؟ چیمہ صاحب نے کہا نہیں نہیں کچھ نہیں کہہ کر ٹال دیا۔ چیمہ صاحب کی وطن عزیز اور خاص کر اپنے گاؤں سے محبت دنیا کے خوبصورت ملک کے سامنے بھی یاد رہنا بلاشبہ وطن عزیز اور خاص کر اپنے گاؤں سے محبت کی حیرت کن مثال ہے۔ جب میں لائبریری میں بیٹھا چیمہ صاحب کی آب بیتی پڑھ رہا تھا تو مجھے وہاں بیٹھے اپنے پیارے گاؤں پٹھان کوٹ کا منظر میری آنکھوں کے سامنے یوں آیا کہ اس سے پھر نکل نہ سکا۔
میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا
گاؤں سے جب بھی آ گیا کوئی
جو کوئی بھی شخص گاؤں کی بات کرتا ہے تو مجھے میرے گاؤں کی یاد ایک بار ضرور رلاتی ہے کیونکہ میرا گاؤں ہے ہی ایسا کہ ایک بار دیکھنے والا ضرور اس کو دیکھنے کی تمنا دوبارہ کرتا ہے۔ میں نے کتاب بند کی اور آنکھ بند کر کے اپنے پیارے گاؤں پھٹان کوٹ میں داخل ہوا جو پاکستان کی شاہرہ ایم ایم روڈ کراچی سے راولپنڈی کے ایک جانب ضلع بھکر میں تحصیل منکیرہ میں واقع ہے۔
ہمارا گاؤں جس کے ابتدائی اور پہلے دروازے سے ہی پندرہ سے بیس فٹ چوڑی اور تقریباً سات سے آٹھ فٹ گہری نہر اور ساتھ ہی سر سبز اور گھنا تقریباً بیس سے بچیس ایکٹر پر محیط جنگل سے شروع ہوتا ہے۔ نہر اور گھنے جنگل کے بیچ پکی سڑک جو ہمارے گاؤں کی طرف جاتی ہے، جنگل ختم ہوتے ہی سر سبز اور ہریالے کھیت اور چاروں طرف سے کھیتوں کے اردگرد اونچے سر سبز و خوبصورت سفیدے اور شرین کے درخت جو کسی جنت کے کھیتوں سے کم نہیں۔
ان کھیتوں میں رنگ برنگی فصل، سورج مکھی کے پھول، کپاس کی سبز و سفید منظر جو کبھی کبھی پاکستانی جھنڈے کی مانند محسوس ہوتا ہے، کھیتوں میں لگے مالٹوں کے باغات، اور پھر گاؤں میں شامیں جس میں ہم رات کو سونے سے پہلے آسمان پر نظر آنے والے چاند کے ارد گرد تارے جس کو ہم ہر روز گننے کی ایک ناکام کوشش کرتے تھے، گاؤں کی رات جو کبھی کبھی مری میں گزرے سردیوں کے دن یاد کروا دیتی ہے، بیشک اللّٰہ تعالیٰ نے میرے گاؤں کو نہ جانے کیا کچھ نہیں دیا۔
میں ابھی وہ ادیب نہیں، جس کے پاس الفاظوں کا وہ ذخیرہ ہوتا ہے جو کسی دریا کے پانی کے ماند ہوتا ہے، بیشک میرا گاؤں جنتوں میں سے ایک جنت ہے۔ میرے دوست اکثر مجھے بڑے بڑے مالز جس میں دنیا کی ہر شے کی ضرورت زندگی مل جاتی ہیں، لاہور کے بحریہ ٹاؤن میں ایفل ٹاور، اندرون لاہور اور مال روڈ جانے کا جب بھی کہتے ہیں، میری ان سے چیمہ صاحب کی طرح یہی سوال ہوتا ہے "آں کدی تینوں اپنا پینڈ وکھا واں "۔
وہ ہمیشہ سے یہی کہتے چھوڑو یار گاؤں کو، گاؤں میں بلا کیا رکھا ہے؟ گاؤں بھی کیا دیکھنے کی چیز ہے؟ دوستوں کو ان کے سوالات کا جواب اس شعر میں۔
گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا
ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا۔
آج کے نوجوان جو غیر کے وطن کی رنگینیوں میں گم ہے، ان کی ظاہری چمک دھمک سے متاثر نوجوانوں کو چیمہ صاحب کی خود نوشت "دو ٹوک” کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، جس سے ان کو وطن عزیز کی قدر اور حقیقی خوبصورتی کا موازنہ معلوم ہو جائے گا، کتاب کے کچھ مندرجات اور مصنف چیمہ صاحب کے خیالات ابھی باقی ہے۔ جن کا ذکر انشاء اللہ اگلے کالم میں ہو گا۔ (جاری ہے)