اسلام آباد (ویب ڈیسک)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے الزامات کے بعد پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے طلب کیا گیا عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ اجلاس جاری ہے۔
اجلاس میں سپریم کورٹ کے تمام جج شریک ہیں۔
اس اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے اس خط کا جائزہ لیا جائے گا جس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے نمائندوں کی عدالتی امور میں مسلسل مداخلت پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ادارہ جاتی ردعمل کی ضرورت ہے اور عدالتی کنونشن سے پتا چلے گا کہ کیا ملک کی دیگر ہائیکورٹ کے ججوں کو بھی اس صورتحال کا سامنا ہے۔
خط میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو انٹیلیجنس ادارے کی مداخلت کے بارے میں بات کرنے پر 11 اکتوبر 2018 کو عہدے سے برطرف کیے جانے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے 22 مارچ کے فیصلے میں جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو غلط قرار دیا تھا اور انھیں ریٹائرڈ جج قرار دیا تھا۔
خط میں جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے عائد کردہ الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
خط میں کہا گیا کہ اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو انڈرمائن کرنے والے کون تھے اور ان کی معاونت کس نے کی؟
اس خط میں کہا گیا ہے کہ سب کو جوابدہ کیا جائے تاکہ یہ عمل دہرایا نہ جا سکے۔ اس کے علاوہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔
خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں تحقیقات کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے کہ کہیں اب بھی تو اس طرح کی مداخلت جاری نہیں اور کہیں مقدمات کی سماعت کے لیے مارکنگ اور بینچز کی تشکیل میں اب بھی تو مداخلت جاری نہیں؟
ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحقیقات ہونی چاہییں کہ کیا سیاسی مقدمات میں عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونا ریاستی پالیسی تو نہیں اور کہیں انٹیلیجنس آپریٹوز کے ذریعے ججز کو دھمکا کر اس پالیسی کا نفاذ تو نہیں کیا جا رہا ہے۔
اس خط کے سامنے آنے کے بعد ملک بھر سے بار کونسلز نے بھی اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف نے اسے چارج شیٹ قرار دیا ہے۔