ہارورڈ:(ویب ڈیسک) گوگل نے انسانی دماغ کے ایک چھوٹے سے حصے کا اب تک سب سے تفصیلی نقشہ تیار کیا ہے جس میں اس کے اہم گوشے انتہائی تفصیل سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس میں عصبی خلیات(نیورون) اور ان کے درمیان رابطوں کو انتہائی مفصل انداز میں دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ نقشہ آن لائن مفت میں آن لائن دستیاب ہے جس میں فی الحال 50 ہزار خلیات کو شامل کیا گیا ہے۔ تمام خلیات کو سہ جہتی (تھری ڈی) انداز میں دیکھا جاسکتا ہے جن پر مکڑی کے جالے کے طرح لاتعداد ابھار ہیں اور مجموعی طور پر 13 کروڑ رابطوں یا تاروں سے منسلک ہیں۔ واضح رہے کہ صرف 50 ہزار دماغی خلیات کا یہ ڈیٹا 1.4 پیٹابائٹس کے برابر ہے یعنی جدید ترین کمپیوٹرکی گنجائش سے بھی 700 گنا جگہ گھیرتا ہے۔
اس کا ڈیٹا اتنا بڑا ہے کہ اب تک سائنسدانوں نے اسے تفصیل سے نہیں دیکھا ہے۔ اس کے ماہر ویرن جین کہتے ہیں کہ یہ پہلا قدم ہے اور یہ انسانی جینوم کے مطالعے جیسا ہے جس پر 20 سال بعد اب بھی تحقیق جاری ہے۔ اسی طرح دماغی نقشہ سازی کا یہ سفر بھی جاری رہے گا۔
اس تحقیق میں غیرشامل اور ہارورڈ یونیورسٹی کی ماہر کیتھرین ڈیولیک کہتی ہیں کہ ہم پہلی مرتبہ انسانی دماغ کے اتنے بڑے حصے کی اصل ساخت دیکھ رہے ہیں اور یہ جان کر میں بہت جذباتی ہورہی ہوں کہ دماغ کا اتنا تفصیلی نقشہ بنایا گیا ہے۔
یہ کام ہارورڈ یونیورسٹی کے ہی ایک سائنسداں جیف لٹمان نے اس وقت شروع کیا تھا جب انہوں نے کسی دوا سے ٹھیک نہ ہونے والی لاعلاج 45 سالہ مرگی کی مریضہ کے دماغ کا ایک ٹکڑاحاصل کیا تھا۔ یہ گوشہ ہیپوکیمپس کے بائیں جانب واقع تھا اور یہی سے مرگی پیدا ہورہی تھی۔ اس دوران دماغ کے بعض تندرست خلیات بھی باہر نکالے گئے تھے۔
دماغ سے نکالے جانے کے فوری بعد مختلف کیمیکل میں دماغی حصے کو محفوظ کیا گیا۔ اس کے بعد اسے بھاری دھات مثلاً اوسمیئم میں ڈبویا گیا۔ اس سے دماغی گوشے کی بیرونی سطح صاف ہوگئی اورالیکٹرون خردبین سے ہر خلیہ واضح اور صاف نظر آنے لگا۔ اس کے بعد ایک طرح کی شفاف گوند میں دماغ کو ڈبوکر اسے سخت کیا گیا۔ اس کے بعد دماغی گوشے کی 30 نینومیٹر پتلے ٹکڑوں (سلائس) میں کاٹا گیا جو انسانی بال سے ہزار درجے باریک ہیں ۔ اس کے بعد ہر گوشے کی تصویر الیکٹران مائیکرواسکوپ سے کھینچی گئی اور اسے مزید بہتر بنایا گیا۔
اس کے بعد مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت سے اس حصے کا تھری ڈی نقشہ بنایا گیا اور مختلف طرح کے خلیات کی واضح نشاندہی بھی کی گئی۔ دیگر ماہرین نے بھی اس ڈیٹا سیٹ کو ایک بڑا خزانہ قرار دیا ہے ۔ توقع ہے کہ اس کی بدولت مزید کئی دریافتیں ہوسکیں گی۔