جنیوا:(ویب ڈیسک) عالمی ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ہمارے سیارے کے اوسط درجہ حرارت میں 2031 تک ڈیڑھ (1.5) ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوجائے گا جس کا نتیجہ ناقابلِ یقین حد تک بھیانک ماحولیاتی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
یہ پیش گوئی انہوں نے ’’ماحولیاتی گھڑی‘‘ (کلائمیٹ کلاک) کی بنیاد پر کی ہے جسے 2015 میں بنایا گیا تھا تاکہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے پر مسلسل نظر رکھتے ہوئے مستقبل کا درست ترین ماحولیاتی منظر نامہ ترتیب دیا جاسکے۔
اس بارے میں ’’کلائمیٹ کلاک ڈاٹ نیٹ‘‘ کے نام سے باقاعدہ ویب سائٹ بھی موجود ہے جہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے لمحہ بہ لمحہ اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کے علاوہ اس ممکنہ وقت کا اندازہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ جب یہ اضافہ ڈیڑھ (1.5) سینٹی گریڈ کی خطرناک حد تک پہنچ جائے گا۔
’’کلائمیٹ کلاک‘‘ سے پتا چلتا ہے کہ آج دنیا بھر میں ہر سیکنڈ کے دوران 24 لاکھ پاؤنڈ (تقریباً 11 ہزار ٹن) کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل ہورہی ہے، درجہ حرارت میں اضافہ 1.238 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے جو آئندہ 10 سال میں 1.5 ڈگری کی حد کو چھو لے گا۔
ڈیڑھ ڈگری کی اہمیت
ماحولیاتی ماہرین پچھلے کئی سال سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ بیسویں صدی کے اوسط عالمی درجہ حرارت کے مقابلے میں صرف 1.5 فیصد کا اضافہ بھی پوری انسانیت کےلیے ہلاکت خیز ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس اضافے کے بعد ماحولیاتی تباہی اتنی شدید ہوجائے گی کہ اس کا ازالہ کرنا ہمارے بس میں نہیں رہے گا۔
واضح رہے کہ 1750 میں صنعتی انقلاب سے پہلے تک زمین کا اوسط درجہ حرارت 13.42 ڈگری سینٹی گریڈ تھا جس کے بعد اس میں بتدریج اضافہ ہونے لگا۔
صنعتوں سے بڑے پیمانے پر خارج ہونے والی آلودگی کے نتیجے میں یہ اوسط 1880 اور 1919 کے درمیان بڑھ کر 13.7 ڈگری سینٹی گریڈ پر پہنچ گیا جبکہ بیسویں صدی میں یہ اوسط 15.5 ڈگری سینٹی گریڈ پر رہا۔
امریکی ادارے ’’نوآ‘‘ کے مطابق، زمین کا اوسط درجہ حرارت 2000 میں 15.92 ڈگری سینٹی گریڈ، یعنی بیسویں صدی کے اوسط سے 0.42 ڈگری زیادہ تھا۔ 2020 میں یہ اوسط بڑھ کر 16.48 ڈگری سینٹی گریڈ (بیسویں صدی کے اوسط سے 0.98 ڈگری زیادہ) ہوچکا تھا۔
سائنسدان بار بار خبردار کررہے ہیں کہ زمین کا ماحول درست کرنے کےلیے وقت ہمارے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے لیکن پچھلے کئی سال کی طرح اس سال بھی ’’کوپ 26‘‘ کے موقع پر عالمی سیاسی قیادت اور سرمایہ داروں نے اپنا غیر سنجیدہ رویہ برقرار رکھا، جس سے یہ تشویش اور بھی شدید تر ہوگئی ہے کہ شاید اگلے چند برسوں بعد ہی ایک خطرناک صورتِ حال ہماری منتظر ہوگی۔